۲ آذر ۱۴۰۳ |۲۰ جمادی‌الاول ۱۴۴۶ | Nov 22, 2024
تصاویر/ نشست روایت های موضوعی از دفاع مقدس با موضوع، تکریم مادران و همسران شهدا و تبیین رشادت های سردار شهید حاج قاسم سلیمانی  در خوی

حوزہ/ (خدا کی قسم) اگر وہ پہاڑ ہوتا تو ایک کوہ بلند ہوتا، اگر وہ پتھر ہوتا تو ایک سنگ گراں ہوتا! میں عالم اسلام کے شہرہ آفاق و شجاع کمانڈر "قاسم سلیمانی" کی بات کر رہی ہوں، قبل از شہادت کمانڈر سلیمانی کا ہمارے یہاں شوشل میڈیا، پرنٹ میڈیا، ملٹی میڈیا، پر کم ہی چرچا تھا، بلکہ یہ کہنا بعید نہ ہوگا کہ زیادہ تر شہادت کے بعد ہی وہ مشرقی دنیا میں ہیرو کے طور پر پہچانے گئے۔

تحریر: ام ابیہا

حوزہ نیوز ایجنسی|

لوکان جبلاً لکان فنداً ولو کان حجرا لکان صلداً

(خدا کی قسم) اگر وہ پہاڑ هوتا تو ایک کوہ بلند ہوتا اگر وہ پتھر ہوتا تو ایک سنگ گراں ہوتا۔

میں عالم اسلام کے شہرہ آفاق و شجاع کمانڈر "قاسم سلیمانی" کی بات کر رہی ہوں۔

قبل از شھادت کمانڈر سلیمانی کا ہمارے یہاں شوشل میڈیا، پرنٹ میڈیا، ملٹی میڈیا، پر کم ہی چرچا تھا بلکہ یہ کہنا بعید نہ ہوگا کہ زیادہ تر شھادت کے بعد ہی وہ مشرقی دنیا میں ہیرو کے طور پر پہچانے گئے ۔

شھادت سے قبل کچھ برس پہلے کمانڈر سلیمانی کی شناسائی طاھرہ میگزین نے کروائی اکثر عالمی خبروں پر نظر ڈالتی تھی خصوصاً ایران ، عراق، لبنان،فلسطین اور سوریہ کے متعلق نیوز پڑھنے میں مجھے کافی دلچپسی تھی اکثر و بیشتر کمانڈر سلیمانی کی تصاویر *"کمانڈر والی وردی"* میں نیوز کے ساتھ شائع دیکھتی تو نہ جانے کیوں خاص رغبت ہوتی تھی وہ کمانڈر والی وردی اور کیپ کے ساتھ بہت اچھے لگتے تھے تب مجھے یہ نہیں پتا تھا کہ وہ ایک *"زندہ شہید"* ہیں تب ہی انکا پاکیزہ چہرہ جس پر ہمیشہ مسکراہٹ بکھری ہوتی تھی میں رشک کرتی تھی خصوصاً جب ٹیلیوژن سے نشر ہونے والی خبروں میں وہ کمانڈر والی وردی اور کیپ کے ساتھ تقریر کرتے دکھائی دیتے تو میرا سینہ *"غرور"* سے بھر جاتا کے ہم مشرقیوں کے پاس جانباز *"ہیرو"* کمانڈر سلیمانی جیسا گراں قدر *"سرمایہ"* ہے۔ *3/1/2020* کی سحر کو میں نہیں جانتی تھی کہ موبائل آن کروں گی تو

"غرور مشرق" کی شھادت کی خبر ملے گی

اس غم نے سکتہ میں ڈال دیا تھا

آہ !

کوئی مجھے بتادے کس نے مشرق کو یتیم کر دیا ؟

کس نے یہ ظلم و ستم کیا ؟

کوئی مجھے بتادے کیا یہی سچ ہے ؟

کہ امید جہانی ،دردمند جہانی، درمان جہانی، قہرمان جہانی، یاران جہانی

ہمیں تنہا چھوڑ کر آسمانی ہوگئے ؟

میرے لیے بہت ت مشکل تھا انکی شھادت کو تسلیم کرنا انکے

"دست بریدہ" کو دیکھ کر میں کیسے یقین کرلوں کہ

عاشق علمدارِ کربلا یعنی انکی سیرت پر چلنے والا خود علمدار جہاں

اپنے لشکر کو تنھا کرگئے

میں کیسے یقین کرلوں کہ حضرت ابالفضل العباس ع کی سیرت پر چلتے ہوئے *"کلنا عباسک یا زینب "* کہنے والا اپنے وقت کے امام کی "غمخواری " کرنے والا اب نہیں رہا

کس قدر گراں تھا مجھ پے پدر مشرق کا دست بریدہ دیکھنا

کس نے دست مشرق کو کاٹا ؟

کس نے کیا رہبر جان کو تنھا؟

کوئی بتائے کہ میرے علمدار کا یہ دست بریدہ ہے ؟ جس کی ہتھیلیاں ہمتوں کا پیکر تھیں؟

موبائل آف کرتے ہوئے پورا دن یہی دعا کرتی رہی خدایا یہ سچ نہ ہو یہ فیک خبر ہو خدا کرے خبر رساں اداروں نے خبر نشر کرنے میں غلطی کردی ہو

ہمارے گھر میں ٹیلیوژن سے استفادہ کرنے کا انتہائی کم اثر و رسوخ تھا ۔

لیکن اس خبر کے بعد پہلی مرتبہ رات کو ساری فیملی افسردگی کے ساتھ ٹی وی اسکرین کے گرد جمع ہوگئی ۔۔۔۔۔تمام نشریات میں *"جری کمانڈر "* کی شھادت کی خبر دی جارہی تھی ۔۔ پس۔میری آخری امید بھی ختم ہوگئی۔۔۔میں بستر پر لحاف اوڑھ کر سسک سسک کر روتی رہی آنسوں سے تکیہ تر ھو چکا تھا ۔۔

میرے دل کا خیمہ جلتا رہے گا

علمدار اب واپس نہیں آئے گا

عزائے مرید عباس ع میں بس

تا ابد دل میرا سوگوار رہے گا

معلوم نہیں وہ بزدل کون تھا جس نے شھداء کے بچوں کو ایک مرتبہ پھر یتیم کر دیا اور مجھے *"مثل پدر"* کے جاودانی غم نے نڈھال کردیا تھا۔۔۔۔۔۔!

حاج کمانڈر کی تصاویر قاب (فریم) میں فٹ کر کے ایک لحظہ کے لیے گھر کی کتب شیلف یا اسٹڈی میز پر رکھتی لیکن جب احساس ہوتا کہ اشکوں کو جذب نہیں کر سکوں گی تو پھر وہ تصاویر کتابوں کے درمیان چھپا دیتی مگر میری آنکھ کے قاب میں انکی تصویر برسوں سے قید تھی وہی کمانڈر وردی والی ۔

میرے پاس وردی والی تصویر A4 سائز کی موجود تھی !

میں نے سوچا کیوں نہ اس تصویر کو قاب میں فٹ کروں ۔۔۔۔مگر میرے پاس قاب تو A4 سے کم سائز والا تھا میں نے ترکیب نکالی کے قینچی سے کٹنگ کرکے قاب میں فٹ کرتی ہوں ۔

عین اسی لمحہ شھید کی حرمت و محبت و عقیدت نے میرے تصور کو جھنجھوڑ کے رکھ دیا میری آنکھیں نم ہوگئیں۔

۔۔۔۔نہیں نہیں میں کمانڈر حاج کی تصویر کو دشمن کی مانند ٹکڑے ٹکڑے نہیں کرسکتی ۔۔۔۔ رونے لگ گئی۔

تصویر کو پارہ کرنے کا یہ کیسا تصور تھا؟

لرزہ تھا وجود میرا پارہ پارہ ہوا تھا دل میرا

نہ جانے وہ ظالم کون تھا جس نے

کیا تھا پارہ پارہ بدن تیرا

میں ان کی دست بریدہ والی تصویر کو نہیں دیکھ سکتی تھی تو پھر انکی ایسی تصویر پر کیسے قینچی چلا سکتی ہوں جو تصویر مکمل سر سے لیکر پاوں تک تھی اگر میں کٹنگ کرتی ہوں تو قینچی شھید حاج کے جسم پر چلے گی خواہ وہ تصویر ایک کاغذ کی ہی کیوں

نہ ھو مگر ۔۔۔۔۔شہید کی محبت و حرمت سے بھرے دل نے گوارا نہیں کیا

وہ کتنا بے رحم تھا پھول کی مانند بدن کو تیرے

زرہ زرہ کر ڈالا جیسے دھول میں بکھرے ہوں پتے

میرے دل سے پوچھے کوئی تو کتنا مجھے پیارا ہے

تجھے کیا تیری تصویر کو کوئی

چھوے مجھے یہ کب گوارا ہے۔

تبصرہ ارسال

You are replying to: .